معلوم نہیں، کہاں کی تیاری ہے
جسم چھوٹتا جا رہا ہے
دل مرحلہ وار مر رہا ہے
گمشدہ روح کا نوحہ ہے
آنکھوں کے منظر پتھر
چہرے سبھی اجنبی
اپنا احساس بھی نہیں رہا
جہاں خود کو رکھتی ہوں
پھر وہیں سے ملتی نہیں
خدا جانے یہ کیا معاملہ ہے
زندہ ہوں زندگی کا احساس نہیں۔۔۔
فرح دیبا آکرم