تم میری آخری خوشی ہو
اسی جیون میں حاصل ہو
مجھے معلوم ہے
تم آخری ۔۔۔اور میری ہو
اسں سے بڑھ کر تو کچھ نہیں
میں تمھیں جی رہا ہوں
لمحہ لمحہ لکھ رہا ہوں
ساتھ ساتھ بیت رہا ہوں
کبھی سفید ریت پہ میرے ساتھ ٹہلتی ہو
پہاڑ کی بلندی پہ اُڑتی ہو
سمندر کی تہہ میں تیرتی ہو
مسجدوں کے دالانوں میں کھو جاتی ہو
پھر مجھے اپنے نرم کندھوں پہ سلا کر جاگتی رہتی ہو
تم کیسے اتنی محبت کر لیتی ہو
مجھے زندہ رکھتے رکھتے خود میں مر جاتی ہو
مجھے بھی کچھ کرنا ہے
تمھارے لئے
نہیں اپنے لئے
پر میں کچھ نہیں کر پاؤں گا
کرنے والے کر گزرتے ہیں
باتیں نہیں کرتے
ہم کتنے مختلف ہیں
تم مجھے، میں خود کو جیتا ہوں۔۔۔
فرح دیبا آکرم